🌙 سب سے بہتر بننے کی تلاش
رات گہری ہو چکی تھی۔
کمرے کی خاموشی میں صرف گھڑی کی ٹک ٹک سنائی دے رہی تھی۔ میں کرسی پر بیٹھا تاریخ کے اوراق میں گم تھا — وہ تاریخ جس میں انبیاء، ائمہ، اور ان کے مخلص ساتھیوں کی قربانیاں درج ہیں۔
دل ہی دل میں سوچا:
“کیا خوش نصیب تھے وہ لوگ جو نبی اکرم ﷺ کے زمانے میں جیے۔ جنہوں نے اُن کی بات سنی، اُن کے ہاتھ پر بیعت کی، اور اپنی جان، مال، سب کچھ اُن پر قربان کر دیا۔ بے شک وہی تو تاریخ کے سب سے بہترین لوگ تھے۔”
یہ خیال ابھی دل میں مکمل نہ ہوا تھا کہ ایک اور سوال نے جنم لیا۔
“نہیں… شاید امام حسینؑ کے اصحاب اُن سب سے بہتر تھے۔ وہ لوگ جنہوں نے کربلا میں اپنی جان دے کر اسلام کو زندہ رکھا۔ کیا اُن جیسے کسی کو ڈھونڈا جا سکتا ہے؟”
میں دیر تک اسی خیال میں ڈوبا رہا۔
یہ عقیدہ برسوں دل میں قائم رہا — یہاں تک کہ ایک دن حضرت امام سجادؑ کا فرمان پڑھا۔
اور میری سوچ بدل گئی۔
امام سجادؑ نے اپنے ایک صحابی سے فرمایا تھا:
“جان لو! بارہویں امام کی غیبت بہت طویل ہو گی۔ اور کیا تم جانتے ہو کہ اُس زمانے کے سب سے بہترین لوگ کون ہوں گے؟
وہ لوگ جو غیبت میں رہتے ہوئے اپنے امام پر ایمان رکھیں گے، اُن کے ظہور کے منتظر ہوں گے، اور اپنے عقیدہ پر قائم رہیں گے۔ یہی وہ لوگ ہیں جو تمام زمانوں کے لوگوں سے بہتر ہوں گے۔”
میں ٹھٹھک گیا۔
کیا واقعی؟
کیا آج — اس غیبت کے زمانے میں — ہم بھی اُن خوش نصیبوں میں شامل ہو سکتے ہیں؟
امامؑ نے فرمایا تھا:
“إنَّ أَهْلَ زَمانِ غَيبَتِهِ… أَفضَلُ أَهلِ كُلِّ زَمان”
“غیبت کے زمانے کے لوگ تمام زمانوں کے لوگوں سے بہتر ہوں گے۔”
میرے دل میں ایک روشنی سی اتر آئی۔
تو مطلب یہ ہوا… کہ اگر میں اپنے امامِ زمانہ پر ایمان رکھوں، اُن کے ظہور کا سچا منتظر بنوں، تو میرا درجہ بھی اُن اصحاب سے بلند ہو سکتا ہے جنہوں نے تلوار کے سائے میں جان دی۔
لیکن کیسے؟
امامؑ نے اس کا بھی جواب دے دیا تھا۔
دو شرطیں رکھی تھیں:
- ایمان اور یقین:
اپنے امام زمانہ کی امامت پر پختہ ایمان رکھو۔ اُن سے متعلق علم بڑھاؤ۔ شکوک و شبہات کے جواب تلاش کرو تاکہ تمہارا عقیدہ مضبوط ہو جائے۔ - حقیقی انتظار:
صرف زبانی نہیں، دل سے منتظر بنو۔
ہر لمحہ اپنے امام کی یاد میں رہو۔ تمہارا کردار، گفتار، اور اعمال ایسے ہوں جو اُن کی خوشنودی کا سبب بنیں۔ یہی انتظار ہے — جو انسان کو بہترین بناتا ہے۔
امام سجادؑ کا ایک اور فرمان میرے دل کو چھو گیا:
“زمانہ غیبت میں ایسے لوگ ہوں گے جن کے لیے امام کی غیبت اور ظہور برابر ہوں گے۔
وہ ایسے مومن ہوں گے جیسے پیغمبر ﷺ کے رکاب میں لڑنے والے صحابہ۔”
میں نے آنکھیں بند کیں اور دیر تک سوچتا رہا۔
کتنا عجیب ہے — ہم شکایت کرتے ہیں کہ امام ہمارے سامنے نہیں، مگر امام خود ہمیں بتا رہے ہیں کہ اگر ہم معرفت حاصل کر لیں، تو غیبت اور ظہور میں فرق ہی باقی نہیں رہتا۔
خدا عادل ہے۔ وہ جانتا ہے کہ ہم اس زمانے میں ہیں، جب امام پردہ غیبت میں ہیں۔
لیکن اسی نے ہمیں یہ موقع بھی دیا ہے — کہ ہم ایمان، علم، اور انتظار کے ذریعے اُن کے قریب پہنچیں۔
میں نے خود سے کہا:
“خوش نصیب ہیں وہ جو اس دور میں جی رہے ہیں، اگر وہ پہچان لیں کہ ان کا فریضہ کیا ہے۔”
تو اٹھو —
احساسات سے آگے بڑھو،
اور معرفت کی راہ پر قدم رکھو۔
یہی وہ راہ ہے جو تمہیں سب سے بہتر بنا سکتی ہے۔
یہی وہ وعدہ ہے جو امام سجادؑ نے تم سے کیا ہے۔