🎙️ ٹاک شو: “وہ رحمت جو سب کچھ ڈھانپ لیتی ہے”

میزبان: رضا جعفری
مہمان: مولانا صادق عباس

سوال 1: مولانا! اس فقرے کا سب سے اہم نکتہ کیا ہے؟

مولانا:
اس فقرے میں دعا کی بنیاد “رحمت” پر رکھی گئی ہے۔
بندہ اللہ سے یہ نہیں کہہ رہا کہ میرے عمل کا بدلہ دے، بلکہ یہ کہہ رہا ہے:

میں تجھ سے اس رحمت کے واسطے سوال کرتا ہوں جو ہر چیز پر چھائی ہوئی ہے!”

سوال 2: “رحمت” یہاں کن معانی میں استعمال ہوئی ہے؟

مولانا:
رحمت یہاں اللہ کے اس عمومی فضل کی طرف اشارہ ہے جس نے مؤمن و کافر، نیک و بد، ہر مخلوق کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔

📖 قرآن نے فرمایا:

وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ (سورہ اعراف 156)

سوال 3: “وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ” کا مطلب کیا ہے؟

مولانا:
اس کا مطلب ہے کہ اللہ کی رحمت کسی چیز سے خالی نہیں ہے
نہ گناہ اتنے بڑے ہیں کہ وہ اس میں سما نہ سکیں،
نہ دل اتنے سخت ہیں کہ وہ اس سے نرم نہ ہو سکیں۔

سوال 4: دعا کی ابتدا “رحمت” سے کیوں کی گئی؟

مولانا:
کیونکہ اللہ کا سب سے پہلا تعارف بھی رحمن و رحیم سے ہے۔
رحمت وہ دروازہ ہے جس سے ہر گناہگار کو اندر آنے کی اجازت ہے، بشرطیکہ وہ “دروازے کی طرف” آئے۔

سوال 5: اس فقرے سے عملی بندگی کیسے حاصل ہو سکتی ہے؟

مولانا:
یہ فقرہ ہمیں سکھاتا ہے کہ ہم اپنی دعاؤں، توبہ، اور اعمال کا مرکز “رحمتِ خدا” کو بنائیں، نہ کہ اپنی نیکیوں پر گھمنڈ۔

Categories: