سورہ الحمد کا انٹرویو

سورہ الحمد کے ساتھ گفتگو

بسم اللہ الرحمن الرحیم

میزبان:  قرآن مجید سے اپنی محبت اور لگاؤ ​​بڑھانے کے لیے، ہم نے  قرآن مجید کی سورتوں کا مختصر انٹرویو کیا ہے جو پیروان قرآن و اہلبیت کی خدمت میں پیش کرتے ہیں ۔

آج ہم سورہ مبارکہ حمد کی خدمت میں حاضر ہیں  ، اس سورہ کے الفاظ خالق اور مخلوق کے درمیان تعلق کی ایک خوبصورت تصویر ہیں۔  اس سورہ کو حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ایک عظیم تحفہ کے طور پر دیا گیا ہے۔
برائے مہربانی ہمیں  اپنا تعارف کرائیں.
مہمان: میں  قرآن کریم کا پہلا سورہ  فاتحہ الکتاب ہوں، ، حالانکہ مجھے دوسرے ناموں سے بھی جانا جاتا ہے جیسے حمد، ام القرآن، وافیہ، کفایہ اور شافعیہ۔ میری سات آیات ہیں۔ میں مکہ میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر نازل ہوئی۔

میزبان: براہ کرم ہمیں اپنی آیات کے موضوعات کے بارے میں کچھ بتائیں؟

مہمان: میرا موضوع دراصل قرآن مجید کی تعلیمات کا خلاصہ بیان کرنا ہے، اس کا ایک حصہ توحید اور اللہ تعالیٰ کی صفات کی پہچان کے بارے میں ہے، اس کا دوسرا حصہ قیامت کے بارے میں ہے، اور تیسرا حصہ ہدایت و گمراہی کےبارے میں ہےکہ جو مومن اور کافرکے درمیان کی حد فاصل ہے۔. میری آیات میں عبادات اور بندگی کا  ذکر بھی ہے اور بندوں کی حاجتیں اور درخواستیں بھی۔
میزبان: ایسا لگتا ہے کہ آپ کی آیات مبارکہ کا لہجہ دوسری سورتوں سے مختلف ہے؟

مہمان:( میں نے سورہ فاتحۃ الکتاب کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان تقسیم کر دیا ہے، اس لیے اس سورت کا آدھا حصہ میرا ہے اور باقی آدھا میرے بندے کا ہے، اور میرا بندہ اس میں مجھ سے جو کچھ مانگتا ہے، میں اسے عطا کر دیتا ہوں۔) (1)

یقینا آپ نے دیکھا ہوگا کہ میری آیات بندوں کی زبان حال  سے ہیں، درحقیقت اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو میرے ذریعے دعا اور بات کرنے کا طریقہ سکھایا ہے۔
میزبان:ہم نے سنا ہے کہ آپ کو سبع مثانی بھی کہا جاتا ہے، اس نام کا کیا مطلب ہے؟

مہمان:  مجھے سبع مثانی اس لیے کہا جاتا ہے کہ میری سات آیات ہیں جو دو بار نازل ہوئی ہیں، ایک بار مکہ میں اور دوسری بار مدینہ میں، اس کے علاوہ، مجھے ہر نماز میں دو بار پڑھا جاتا ہے اور “اللہ، رحمن، رحیم، ایاک، صراط، علیہم جیسے الفاظ”)) دو مرتبہ بیان ہوئے ہیں۔ (2)
میزبان:  آپ کی ایک  آیت “اھدنا الصراط المستقیم” ہے، کیا آپ ہمیں “صراط” کی شناخت کا معیار  بتا سکتے ہیں؟

مہمان: (صراط مستقیم) سیدھا راستہ خدا کی معرفت کا راستہ ہے اور یہ دو راستے ہیں، ایک دنیا میں اور دوسرا آخرت میں۔ دنیا کا راستہ اس امام کو پہچاننا ہے جس کی اطاعت مخلوق پرواجب ہے لیکن آخرت کا راستہ جہنم پر بنا ہوا پل ہے، جو شخص دنیا میں اپنے امام کو پہچانے گا اور اس کی اطاعت کرے گا وہ آخرت میں اس پل کوآسانی سے عبور کر لے گا۔ اور جس نے دنیا میں اپنے امام کو نہ پہچانا وہ آخرت میں اس راستے سے پھسل جائے گا اور جہنم کی آگ میں گر کر ہلاک ہو جائے گا۔ (3)
میزبان: لوگ آپ کی تلاوت میں اپنی تکالیف اورپریشانیوں کا علاج کیوں تلاش کرتے ہیں؟

مہمان: کیا آپ نے نہیں سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: سورہ ام الکتاب قرآن کی بہترین سورت ہے اور ہر درد کی شفاء ہے۔ (4)

بلا شک و شبہ  میری تلاوت  میں بیماریوں اور پریشانیوں کا علاج ہے۔
میزبان: براہ کرم ہمیں  اپنی تلاوت کے کچھ اور فضائل بتائیں؟

مہمان:”جو شخص سورہ حمد کی تلاوت کرے گا، اللہ تعالیٰ اس کو آسمان سے نازل ہونے والی ہر آیت کے برابر ثواب عطا فرمائے گا۔ (5) اور گویا اس نے ایک سو چار آسمانی کتابیں پڑھی ہیں۔ (6)
میزبان: اس گفتگو کے آخر میں، اگر آپ ہمارے لیے دعا فرمائیں تو ہم آپ کےبہت مشکور ہوں گے۔

مہمان: اے اللہ ، ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور صرف تجھ سے ہی مدد مانگتے ہیں۔ ہمیں سیدھی راہ دکھا، وہ راستہ جو تیری دوستی کی طرف لے جاتا ہے (7)، ان لوگوں کا راستہ جن کو تو نے نعمات و برکات سے سے نوازا ہے، نہ کہ جن پرتیراغضب نازل ہوا ۔ (8)

میزبان:ہم اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ جس نے ہمیں کچھ وقت اس سورہ سے استفادہ کرنے کا موقعہ عطا فرمایا، اور دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں زیادہ سے زیادہ قرآن پڑھنے اور اس کے احکامات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

حوالہ جات

1بحارالانوار 92/226
2تفسير جامع، ج 1 ص 150
3معاني الاخبار ،ص 28
4تفسير عياشي ،ج 1 ص20
5بحارالانوار 92/228
6تفسير جامع ،ج1 ص 149
7معاني الاخبار ،ص 28
8معاني الاخبار ،ص 32

Categories: