مسلمان کی اجتماعی ذمہ داری

قـالَ النّبِيّ ﷺ:
مَنْ اَصْبَحَ لا يَهْتَمُّ بِاُمُورِ الْمُسلمِينَ فَلَيْسَ مِنْهُمْ، وَ مَنْ سَمِعَ رَجُلاً يُنادى يا لَلْمُسلمِينَ فَلَمْ يُجِبْهُ فَلَيْسَ بِمُسْلِمٍ
(وسائل الشیعہ، ج 11، ص 559)

رسولِ خدا ﷺ نے فرمایا:
“جو شخص صبح کرے اور مسلمانوں کے امور (ان کی حالت، مسائل اور بھلائی) کی فکر نہ کرے تو وہ ان میں سے نہیں ہے۔ اور جو کسی شخص کو یہ پکارتے سنے کہ ‘اے مسلمانو! مدد کرو’ اور پھر اس کی مدد کو نہ پہنچے، تو وہ مسلمان نہیں ہے۔”

وضاحت

  • اُمورِ المسلمین: اس سے مراد مسلمانوں کی اجتماعی، معاشی، دینی، اور سکیورٹی سے متعلق ضروریات ہیں۔
  • دلچسپی اور فکر: صرف زبانی ہمدردی نہیں بلکہ عملی تعاون اور مسئلے کو حل کرنے کی کوشش۔
  • مدد کی پکار: اگر کوئی مدد مانگے اور ہم طاقت رکھتے ہوں لیکن مدد نہ کریں تو یہ اسلامی اخوت کے خلاف ہے۔
  • یہ حدیث اسلام میں سماجی ذمہ داری اور امت میں باہمی تعاون کے بنیادی اصول کو بیان کرتی ہے۔

عملی نکات

  1. مسلمانوں کے مسائل سے باخبر رہیں اور اپنی استطاعت کے مطابق حل میں کردار ادا کریں۔
  2. ضرورت مند، بیمار، بے گھر یا مظلوم مسلمانوں کی مدد کریں۔
  3. مدد کی پکار پر فوری اور مخلصانہ ردعمل دیں۔
  4. امتِ مسلمہ کے اجتماعی مفاد کو ذاتی مفاد پر ترجیح دیں۔
  5. اگر براہِ راست مدد ممکن نہ ہو تو دعا، مشورہ، یا سفارش کے ذریعے کردار ادا کریں۔

🎙 ٹاک شو: مسلمانوں کے مسائل کی فکر — ایمان کی شرط

میزبان: رضا جعفری
مہمان: مولانا صادق عباس

🎬 ابتدا

رضا جعفری:
السلام علیکم ناظرین! آج ہم ایک نہایت اہم حدیث پر بات کریں گے جو امتِ مسلمہ کے لیے ذمہ داری کا معیار طے کرتی ہے۔ رسول ﷺ نے فرمایا:
“جو شخص صبح کرے اور مسلمانوں کے امور کی فکر نہ کرے، وہ ان میں سے نہیں۔ اور جو کسی کو ‘اے مسلمانو! مدد کرو’ پکارتے سنے اور جواب نہ دے، وہ مسلمان نہیں ہے۔”
مولانا صاحب! اس حدیث کا بنیادی پیغام کیا ہے؟

💬 گفتگو

مولانا صادق عباس:
وعلیکم السلام۔ یہ حدیث بتاتی ہے کہ مسلمان ہونا صرف عبادات کا نام نہیں بلکہ امت کے مسائل میں عملی دلچسپی لینا بھی ایمان کا لازمی حصہ ہے۔ اگر ہم بے حس ہیں تو ہم اسلامی بھائی چارے کی روح سے خالی ہیں۔

رضا جعفری:
مولانا صاحب! “اُمورِ المسلمین” کی فکر کے کیا عملی تقاضے ہیں؟

مولانا صادق عباس:
اس کا مطلب ہے کہ ہم مسلمانوں کے مسائل جانیں، ان کے لیے فکر کریں، منصوبہ بندی کریں، اور جہاں ممکن ہو مدد کریں۔ یہ مدد مالی، جسمانی، علمی، یا اخلاقی کسی بھی صورت میں ہو سکتی ہے۔

رضا جعفری:
مدد کی پکار پر جواب نہ دینے کو یہاں “مسلمان نہ ہونا” کیوں کہا گیا؟

مولانا صادق عباس:
کیونکہ یہ عملی بے وفائی ہے۔ جب امت کا کوئی فرد مشکل میں ہو تو ہم سب اس کے لیے ذمہ دار ہیں۔ اس وقت خاموش رہنا اور بے عملی دکھانا اسلامی بھائی چارے کے انکار کے مترادف ہے۔

رضا جعفری:
آج کے حالات میں ہم اس حدیث پر کس طرح عمل کر سکتے ہیں؟

مولانا صادق عباس:

  • اپنے علاقے کے ضرورت مندوں کی خبر رکھیں۔
  • ظلم یا ناانصافی دیکھیں تو آواز بلند کریں۔
  • انسانی خدمت کے منصوبوں میں حصہ لیں۔
  • آن لائن اور آف لائن دونوں طریقوں سے ضرورت مند کی مدد کریں۔

📌 اختتامی پیغام

رضا جعفری:
ناظرین! مسلمانوں کے مسائل کی فکر اور مدد کی پکار پر لبیک کہنا صرف اخلاقی نہیں بلکہ ایمانی ذمہ داری ہے۔ آئیں اس حدیث کو عملی زندگی میں اپنائیں۔

📚 کوئز: مسلمانوں کے مسائل کی فکر — ایمان کی شرط

سوال 1:
“اُمورِ المسلمین” سے کیا مراد ہے؟
صحیح جواب: مسلمانوں کے اجتماعی، معاشی، دینی اور سکیورٹی سے متعلق امور

سوال 2:
یہ حدیث کس کتاب میں مذکور ہے؟
صحیح جواب: وسائل الشیعہ (ج 11، ص 559)

سوال 3:
حدیث میں “ان میں سے نہیں” سے کیا مطلب ہے؟
صحیح جواب: اسلامی بھائی چارے اور امت کے دائرے سے باہر

سوال 4:
مدد کی پکار پر جواب نہ دینا کس چیز کے منافی ہے؟
صحیح جواب: ایمان اور اسلامی اخوت کے

سوال 5:
“اُمورِ المسلمین” کی فکر کا ایک عملی تقاضا کیا ہے؟
صحیح جواب: مسلمانوں کے مسائل جاننا اور حل میں کردار ادا کرنا

سوال 6:
مدد کی پکار پر جواب دینے کے کیا طریقے ہو سکتے ہیں؟
صحیح جواب: مالی، جسمانی، علمی، یا اخلاقی مدد

سوال 7:
مسلمانوں کے مسائل سے بے خبری کا نتیجہ کیا ہے؟
صحیح جواب: ایمان کی کمزوری اور امت سے عملی لاتعلقی

سوال 8:
اسلامی بھائی چارے کا اصل مقصد کیا ہے؟
صحیح جواب: ایک دوسرے کے مسائل میں تعاون اور مدد

سوال 9:
مدد کی پکار پر جواب دینا کیوں ضروری ہے؟
صحیح جواب: کیونکہ یہ ایمانی اور انسانی ذمہ داری ہے

سوال 10:
آج کے دور میں اس حدیث پر عمل کرنے کا ایک طریقہ کیا ہے؟
صحیح جواب: ظلم کے خلاف آواز اٹھانا اور ضرورت مند کی فوری مدد کرنا

Categories: