مومن و مسلمان کیسا ہو؟

قـالَ النّبِيّ ﷺ:
اَلْمُؤْمِنُ مَنْ اَمِنَهُ المُسلِمونَ عَلى اَمْوالِهِمْ وَ دِمائِهِمْ، وَ الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ يَدِهِ وَ لِسانِهِ، وَ الْمُهاجِرُ مَنْ هَجَرَ السَّيّئاتِ
(من لا یحضره الفقیه، ج 4، ص 362)
رسولِ خدا ﷺ نے فرمایا:
“مؤمن وہ ہے جس سے مسلمان اپنے مال اور جان کے بارے میں محفوظ رہیں۔ مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ اور مہاجر وہ ہے جو برائیوں کو ترک کرے۔”

وضاحت

  • مؤمن: حقیقی ایمان والا وہ ہے جو دوسروں کے جان و مال کے لیے خطرہ نہ ہو بلکہ امانت و حفاظت کا باعث ہو۔
  • مسلمان: صرف زبانی اسلام کافی نہیں، بلکہ ہاتھ اور زبان سے کسی کو نقصان نہ پہنچانا بھی ضروری ہے۔
  • مہاجر: صرف شہر یا ملک چھوڑنے والا نہیں بلکہ گناہوں اور برائیوں کو چھوڑ دینے والا اصل مہاجر ہے۔

عملی نکات

  1. ایمان کا عملی ثبوت دوسروں کے لیے امن اور تحفظ کا ذریعہ بننا ہے۔
  2. زبان کی حفاظت کریں — چغلی، غیبت، اور گالی سے بچیں۔
  3. ہاتھ سے کسی کو جسمانی نقصان نہ پہنچائیں۔
  4. ہجرت کا مطلب صرف جغرافیائی نہیں، بلکہ اخلاقی و روحانی تبدیلی بھی ہے۔
  5. معاشرت میں امن و تحفظ کی فضا قائم کرنا ہر مؤمن کا فریضہ ہے۔

🎙 ٹاک شو: حقیقی مؤمن، مسلمان اور مہاجر کون؟

میزبان: رضا جعفری
مہمان: مولانا صادق عباس

🎬 ابتدا

رضا جعفری:
السلام علیکم ناظرین! آج ہم ایک حدیث پر بات کریں گے جو ایمان، اسلام اور ہجرت کی حقیقی تعریف بیان کرتی ہے۔ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:
“مؤمن وہ ہے جس سے مسلمان اپنے مال اور جان کے بارے میں محفوظ رہیں، مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں، اور مہاجر وہ ہے جو برائیوں کو ترک کرے۔”
مولانا صاحب! اس حدیث کا خلاصہ کیا ہے؟

💬 گفتگو

مولانا صادق عباس:
وعلیکم السلام۔ یہ حدیث ہمیں بتاتی ہے کہ اسلام میں صرف زبانی دعویٰ کافی نہیں۔ ایمان کا ثبوت دوسروں کے لیے امن کا ذریعہ بننا ہے، اور اسلام کا ثبوت ہاتھ اور زبان سے کسی کو نقصان نہ پہنچانا ہے۔ اسی طرح مہاجر وہ ہے جو گناہوں کو چھوڑ دے، چاہے وہ اپنے گھر میں ہی رہ رہا ہو۔

رضا جعفری:
زبان اور ہاتھ کی حفاظت کو یہاں خاص طور پر کیوں ذکر کیا گیا؟

مولانا صادق عباس:
کیونکہ سب سے زیادہ فساد اور نقصان یہی دو چیزیں پہنچاتی ہیں۔ ہاتھ سے جسمانی ظلم اور زبان سے دل آزاری، فتنہ اور دشمنی پیدا ہوتی ہے۔ ایک سچا مسلمان ان دونوں کو قابو میں رکھتا ہے۔

رضا جعفری:
مہاجر کی اس تعریف کا آج کے دور میں کیا مطلب ہے؟

مولانا صادق عباس:
آج کے دور میں سب سے بڑی ہجرت گناہوں، برے اخلاق اور حرام کمائی کو چھوڑ دینا ہے۔ یعنی برائی کی جگہ نیکی اور گناہ کی جگہ طاعت کو اپنانا۔

📌 اختتامی پیغام

رضا جعفری:
ناظرین! ایمان، اسلام اور ہجرت کی یہ تین تعریفیں ہمیں عملی زندگی میں کردار سازی کا مکمل فارمولا دیتی ہیں۔ اپنے ایمان کو دوسروں کے لیے امن کا ذریعہ بنائیں، اپنی زبان و ہاتھ کو محفوظ رکھیں، اور برائیوں سے ہجرت اختیار کریں۔

📚 کوئز: حقیقی مؤمن، مسلمان اور مہاجر کون؟

سوال 1:
مؤمن کی پہچان کیا ہے؟
صحیح جواب: مسلمان اس کے ہاتھ اور زبان سے محفوظ رہیں اور وہ دوسروں کے مال و جان کا محافظ ہو

سوال 2:
مسلمان کی تعریف حدیث کے مطابق کیا ہے؟
صحیح جواب: جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں

سوال 3:
مہاجر کی تعریف کیا ہے؟
صحیح جواب: جو برائیوں کو ترک کرے

سوال 4:
یہ حدیث کس کتاب میں مذکور ہے؟
صحیح جواب: من لا یحضره الفقیه (ج 4، ص 362)

سوال 5:
ایمان کا عملی ثبوت کیا ہے؟
صحیح جواب: دوسروں کو امن فراہم کرنا

سوال 6:
ہاتھ سے نقصان پہنچانے کی مثال کیا ہو سکتی ہے؟
صحیح جواب: مار پیٹ، چوری، یا کسی کا مال چھیننا

سوال 7:
زبان سے نقصان پہنچانے کی مثال کیا ہے؟
صحیح جواب: غیبت، چغلی، یا گالی دینا

سوال 8:
ہجرت کا سب سے اہم پہلو کون سا ہے؟
صحیح جواب: گناہوں کو چھوڑ دینا

سوال 9:
کیا جغرافیائی ہجرت کے بغیر بھی مہاجر بنا جا سکتا ہے؟
صحیح جواب: جی ہاں، برائیوں کو ترک کر کے

سوال 10:
اس حدیث کا بنیادی پیغام کیا ہے؟
صحیح جواب: امن قائم کرنا، زبان و ہاتھ کو قابو میں رکھنا، اور گناہوں سے ہجرت کرنا

Categories: