قوتِ الٰہی: ہر چیز کو جھکا دینے والی طاقت

  1.  

🎙️ ٹاک شو: “قوتِ الٰہی: ہر چیز کو جھکا دینے والی طاقت

ماخوذ از: دعائے کمیل – فقرہ دوم

میزبان: رضا جعفری
مہمان: مولانا صادق عباس

🎤 آغازِ گفتگو:

رضا جعفری:
السلام علیکم ناظرین! آپ دیکھ رہے ہیں “پیغامِ بندگی” اور آج ہمارے ساتھ تشریف فرما ہیں معروف اسکالر مولانا صادق عباس صاحب۔
مولانا صاحب! آج ہم دعائے کمیل کے اس فقرے پر بات کریں گے:

وَبِقُوَّتِكَ الَّتِیْ قَھَرْتَ بِھَا كُلَّ شَیْءٍ، وَخَضَعَ لَھَا كُلُّ شَیْءٍ، وَذَلَّ لَھَا كُلُّ شَیْءٍ

سوال 1:

یہ “قوتِ الٰہی” کیا ہے؟ اور ہم اسے کیسے سمجھ سکتے ہیں؟

مولانا صادق عباس:
اللہ کی قوت، “مخلوقی طاقت” جیسی نہیں، بلکہ مطلق، مستقل، اور مکمل طور پر غالب ہے۔
ہماری طاقت محدود ہے، لیکن اللہ کی طاقت کسی حد میں قید نہیں۔
اسی لیے تو فرمایا:

قَھَرْتَ بِھَا كُلَّ شَیْءٍ
یعنی تُو نے اپنی اسی طاقت سے ہر شے پر غالب آ گیا — نہ کوئی بچ سکا، نہ مقابلہ کر سکا۔

سوال 2:

خَضَعَ اور ذَلَّ کا مطلب کیا ہے؟ اور یہ انسان کے لیے کیا پیغام رکھتے ہیں؟

مولانا:
“خَضَعَ” یعنی جھک جانا،
“ذَلَّ” یعنی ذلیل و پست ہو جانا۔

یہ فقرہ ہمیں سکھاتا ہے کہ دنیا میں جو بھی “طاقتور” نظر آتا ہے — وہ بھی درحقیقت اللہ کی طاقت کے آگے مجبور ہے۔
فرعون، نمرود، قارون — سب جھکے اور پست ہوئے۔

سوال 3:

ہم اللہ کی اس طاقت کو اپنی زندگی میں کیسے محسوس کر سکتے ہیں؟

مولانا:
جب بندہ مشکلات میں گھرا ہو، بیمار ہو، تنہا ہو، تب وہ اگر خلوص سے یہ دعا کرے:

یا قوی! یا قھار! مجھے اپنی طاقت سے سنبھال
تو وہ دیکھے گا کہ دل کو قرار ملتا ہے، دشمن دب جاتے ہیں، اور حالات بدلنے لگتے ہیں۔
اللہ کی طاقت صرف دکھائی نہیں دیتی، بلکہ محسوس ہوتی ہے — اندر سے۔

سوال 4:

آج کا انسان، جو ہر شے پر کنٹرول چاہتا ہے، اس فقرے سے کیا سیکھ سکتا ہے؟

مولانا:
انسان اپنی عقل، ٹیکنالوجی، دولت پر بھروسا کرتا ہے — لیکن جب ایک وائرس ساری دنیا کو بند کر دے، یا ایک حادثہ زندگی بدل دے — تب وہ سمجھتا ہے:

سچی طاقت صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے۔
یہ فقرہ انسان کو غرور سے بچاتا ہے، اور اللہ کی بندگی کی طرف بلاتا ہے۔

سوال 5:

کیا اللہ کی یہ قاہر قوت خوف پیدا کرتی ہے یا امید؟

مولانا:
سبحان اللہ! بہت خوب سوال!
اللہ کی طاقت محض ڈرانے کے لیے نہیں، بلکہ محبت سے جھکنے کے لیے ہے۔
یہ قوت بندے کو پکارتی ہے:

آؤ! جو بھی ہے، جیسا بھی ہے، میرے در پر جھک جاؤ، میں تمہیں تھام لوں گا۔

یہ خوف اور امید دونوں کا امتزاج ہے، جو بندگی کو خالص بناتا ہے۔

🎯 نتیجہ اور نصیحت:

مولانا:
جب ہم اللہ کی قوت کو یاد رکھتے ہیں، تو نہ ہم کسی کے سامنے جھکتے ہیں، نہ مایوس ہوتے ہیں، نہ مغرور بنتے ہیں۔
یہ فقرہ، دعا میں کامل اعتماد کا نام ہے۔

میں کمزور ہوں، مگر میرا رب قوی ہے!”

Categories: